ہمارے پیارے نبی ﷺ نبوت ملنے کے بعد مکہ مکرمہ میں تقریبا بارہ سال رہے ، پھر کفار مکہ کے ظلم و ستم سے مجبور ہوکر مدینہ منورہ چلے جانے کا ارادہ کر لیا.
مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے پہلے ایک دن آپ ﷺ مسجد حرام میں تشریف لائے ، بیت اللہ کی چابی عثمان شیبی کے پاس تھی ، وہ دروازے پر بیٹھا رہتا تھا ، چوں کہ آپ ﷺ مکہ چھوڑ کر ہجرت فرمانے والے تھے ، دل کو بے پناہ صدمہ تھا ، ارادہ کیا کہ خانہ کعبہ میں دو رکعت نماز ادا کر لوں ، اس لیے آپ نے شیبی سے کہا :
اے شیبی! تھوڑی دیر کے لیے بیت اللہ کا دروازہ کھول دے تاکہ میں اندر دو رکعت نفل پڑھ لوں ۔
اس نے ڈانٹ کر کہا کہ تمھیں داخلے کی ہرگز اجازت نہیں ہے ، تم نے باپ دادوں کا دین چھوڑا ہے اور ہمارے بتوں کو برا کہتے ہو ، واپس ہو جاؤ ۔
حضور ﷺ نے دوبارہ کہا :
میں عبادت کرنا چاہتا ہوں ، دو رکعت نماز پڑھنا چاہتا ہوں ۔
اس نے کہا :
نہیں ، آپ کو اجازت نہیں ہے ، آپ جایئے ۔
آپ ﷺ نے فرمایا :
اے شیبی ! یاد رکھ ، ایک وقت آنے والا ہے کہ جس جگہ تو بیٹھا ہوا ہے ، وہاں میں ہوں گا اور جہاں میں کھڑا ہوں ، وہاں تو کھڑا ہوگا ۔ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا ؟
اس نے کہا :
جاؤ ، ایسی باتیں بہت سنی ہیں ۔
اس وقت شیبی اقتدار کے غرور میں مست تھا اور حضور ﷺ چوں کہ بے کس اور بے بس ہوکر گھر سے باہر نکل رہے تھے ، مکہ والوں کی اکثریت تھی ، اقتدار تھا ، دولت اور قوت تھی اور حضور ﷺ کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے چناں چہ آپ واپس چلے آئے اور سفر ہجرت فرمایا ۔
فتح مکہ کے موقعے پر جب آپ ﷺ فاتحانہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے ، تو کفار و مشرکین گھبرا اٹھے ، ڈر رہے تھے کہ آج تو ہم سے ایک ایک ظلم کا گن گن کر حساب لیا جائے گا ، آج ہماری خیر نہیں لیکن آپﷺ نے امن کا اعلان فرما دیا اور سب کو معاف کر دیا ، پھر آپ ﷺ مسجد حرام میں تشریف لائے اور فرمایا : شیبی کو بلاو ۔
وہ آیا ، کعبے کی کنجی اس کے ہاتھ میں تھی ، کعبے کا دروازہ کھولا ، آپ اس جگہ کھڑے ہو گئے جہاں شیبی بیٹھا ہوا تھا اور شیبی وہیں کھڑا ہوا ، جہاں آپ کھڑے ہوئے التجا کر رہے تھے ۔
آپ ﷺ نے فرمایا : شیبی ! وہ وقت یاد ہے کہ میں نے لجاجت میں التجا کی تھی کہ مجھے دو رکعت پڑھنے کی اجازت دے دے ، تونے ڈانٹ دیا تھا ۔
اس نے کہا : جی ہاں ! یاد ہے ۔
آپ ﷺ نے فرمایا : یہ بھی یاد ہے کہ میں نے کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا تھا کہ جس جگہ تو بیٹھا ہے اس جگہ میں ہوں گا اور جس جگہ میں کھڑا ہوا ہوں اس جگہ تو کھڑا ہوگا ، تونے دیکھ لیا ۔
اس نے کہا : جی ہاں ! دیکھ لیا ۔ بے شک میں اسی جگہ کھڑا ہوا ہوں جہاں آپ کھڑے تھے اور آپ اس جگہ ہیں جہاں میں تھا ۔
آپ ﷺ نے فرمایا : اب تیرا کیا حشر ہونا چاہیے ؟
اس نے ایک جملہ کہا :
میں ایک کریم بھائی اور ایک کریم پیغمبر کے سامنے کھڑا ہوا ہوں ۔
دیکھیے شیبی نے رحمت عالم ﷺ کے ساتھ کس طرح گستخانہ انداز اختیار کیا تھا ! لیکن اب جب کہ معاملہ آپﷺ کے ہاتھ میں تھا اور چاہتے تو سر قلم کردیتے ، لیکن آپ نے عجیب تاریخی جملہ ارشاد فرمایا اور عفو و درگزر کا نرالہ انداز اختیار کرتے ہوئے فرمایا :
اے شیبی ! یہ کعبے کی کنجی تیرے حوالے کرتا ہوں ، قیامت تک تیرے ہی خاندان میں رہے گی ، کوئی دوسرا اسے حاصل نہیں کر سکے گا ، آج سے تو اور تیرا خاندان قیامت تک کے لیے کعبے کا متولی اور محافظ ہے ۔
پیارے بچو ! اسلام سچا اور بہت اچھا مذہب ہے ، وہ اپنے دشمن کو بھی معاف کرنے کی تعلیم دیتا ہے ، ہمارے پیارے نبی ﷺ کا زندگی بھر یہی معمول رہا کہ اپنی ذات کے لیے انھوں نے کبھی کسی دشمن سے بدلہ نہیں لیا ، اس لیے تم بھی دشمنوں کو معاف کرنا سیکھو اور اس کی عادت ڈالو ۔